Nokri Lagne Se Pehli Tankhwah Tak نوکری لگنے سے پہلی تنخواہ تک
نوکری کا حصول ہر نوجوان کے خوابوں میں سے ایک بڑا خواب ہوتا ہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب کوئی شخص عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے تو اس کی آنکھوں میں بے شمار امیدیں اور خدشات ہوتے ہیں۔ ایک طرف مستقبل سنوارنے کی خواہش ہوتی ہے، تو دوسری طرف دل میں یہ ڈر بھی ہوتا ہے کہ کیا میں اس مقابلے کی دنیا میں اپنا مقام بنا پاؤں گا یا نہیں۔ "نوکری لگنے سے پہلی تنخواہ تک" کا سفر نہایت اہم، جذباتی اور کئی حوالوں سے سبق آموز ہوتا ہے۔
یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جب انسان ایک نئے دوراہے پر کھڑا ہوتا ہے۔ یونیورسٹی کی زندگی ختم ہو چکی ہوتی ہے، دوستوں کی محفلیں، ہنسی مذاق، اور آزادی کی فضا اب ماضی کا حصہ بن چکی ہوتی ہے۔ اب سامنے صرف ذمہ داریاں، وقت کی قدر، اور پیشہ ورانہ دنیا کی حقیقتیں کھڑی ہوتی ہیں۔ جوں ہی ڈگری مکمل ہوتی ہے، تو ہر طرف سے ایک ہی سوال ہوتا ہے: “اب کیا کرو گے؟ کہاں جاب مل رہی ہے؟” یہ سوالات بظاہر سادہ ہوتے ہیں مگر ان کے پیچھے ایک غیر مرئی دباؤ ہوتا ہے، جو انسان کو بے چینی میں مبتلا رکھتا ہے۔
نوکری کی تلاش خود ایک مکمل داستان ہوتی ہے۔ ہر فرد چاہتا ہے کہ اسے اس کی تعلیم، قابلیت اور مہارت کے مطابق ایک اچھی ملازمت ملے، مگر حقیقت میں ایسا ہونا بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ سینکڑوں جگہوں پر CV بھیجنے کے بعد جب کچھ ہی جگہوں سے جواب آتا ہے، تو انسان خود کو کمتر محسوس کرنے لگتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے جب کسی بھی انٹرویو کی کال ملنے پر انسان خوشی سے جھوم اٹھتا ہے، چاہے وہ نوکری اس کے خوابوں کی نہ ہو۔ انٹرویو دینے جانا، خود کو تیار کرنا، بار بار آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی باڈی لینگویج پر کام کرنا، یہ سب ایک نئے شخص کی شخصیت کو نکھارنے کے اہم مراحل ہوتے ہیں۔
انٹرویو کی گھڑی خود میں ایک الگ دباؤ لیے ہوتی ہے۔ دل کی دھڑکن تیز، ہاتھوں میں ہلکی سی کپکپاہٹ، اور ذہن میں یہ خیال کہ "کیا میں متاثر کر سکوں گا؟" کئی بار انٹرویو بہت اچھا ہوتا ہے مگر جواب نہیں آتا۔ کبھی جواب آتا ہے مگر تقرری نہیں ہوتی۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب انسان صبر سیکھتا ہے، مایوسی اور امید کے درمیان توازن رکھنا سیکھتا ہے۔ اور جب بالآخر وہ لمحہ آتا ہے جب نوکری کی پیشکش ہو جاتی ہے، تو خوشی کا جو احساس ہوتا ہے وہ بیان سے باہر ہوتا ہے۔ وہ لمحہ نہ صرف ایک فرد کے لیے بلکہ اس کے خاندان کے لیے بھی ایک جشن سے کم نہیں ہوتا۔
نوکری لگنے کے بعد کا ابتدائی وقت بھی آسان نہیں ہوتا۔ ہر چیز نئی ہوتی ہے۔ ماحول، لوگ، ذمہ داریاں، حتیٰ کہ صبح جلدی اٹھنے کی عادت بھی بنانی پڑتی ہے۔ جسے پہلے کوئی کام کہنے والا نہ ہو، اب اسے وقت پر پہنچنا، کام مکمل کرنا، باس کو رپورٹ دینا، سب کچھ نئے انداز میں سیکھنا پڑتا ہے۔ کام کا دباؤ، غلطیوں پر تنقید، سیکھنے کا مرحلہ، سب کچھ زندگی کے نئے رنگ دکھاتا ہے۔ یہ دوری بھی اہم ہے کیونکہ یہ انسان کو پروفیشنلزم سکھاتا ہے۔ کبھی کبھار انسان خود کو ان فٹ محسوس کرتا ہے، کچھ دن ایسے بھی آتے ہیں جب دل کرتا ہے سب چھوڑ کر واپس گھر چلا جاؤں، مگر یہ وہی وقت ہوتا ہے جب شخصیت مضبوط ہوتی ہے۔
اور پھر آتی ہے وہ گھڑی جس کا انتظار سب سے زیادہ ہوتا ہے: پہلی تنخواہ۔ وہ لمحہ خوابوں کا سچ ہو جانے جیسا ہوتا ہے۔ جب بینک سے میسج آتا ہے کہ تنخواہ آ چکی ہے، تو دل کی کیفیت بدل جاتی ہے۔ پہلا خیال ہوتا ہے کہ امی ابو کو کیا تحفہ دوں، بہن بھائیوں کو کیا لا کر دوں، اور سب سے بڑھ کر خود کے لیے کیا خریدوں۔ چاہے وہ تنخواہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو، اس کی خوشی دنیا کی کسی بڑی کامیابی سے کم نہیں ہوتی۔
پہلی تنخواہ نہ صرف مالی آزادی کا آغاز ہوتی ہے بلکہ ایک جذباتی سنگ میل بھی ہوتی ہے۔ اس کے پیچھے جو محنت، انتظار اور جدوجہد ہوتی ہے، وہ سب ذہن میں ایک فلم کی مانند چلنے لگتی ہے۔ انسان ماضی کی ہر تکلیف، ہر انکار، ہر انتظار کو یاد کرتا ہے، اور خود پر فخر محسوس کرتا ہے کہ میں نے یہ کر دکھایا۔ پہلی تنخواہ کے ساتھ انسان کی ذمہ داریوں کا آغاز ہوتا ہے، وہ اب صرف ایک طالبعلم یا بے روزگار نہیں بلکہ ایک کفیل، ایک کارکن، ایک پروفیشنل بن چکا ہوتا ہے۔
اسی دوران انسان کو زندگی کے کئی نئے سبق بھی ملتے ہیں۔ پیسہ آتے ہی انسان کو اخراجات کا اندازہ ہوتا ہے۔ وہ سیکھتا ہے کہ بجٹ بنانا کیا ہوتا ہے، سیونگ کیوں ضروری ہے، اور مستقبل کی پلاننگ کیسے کی جاتی ہے۔ وہ رشتہ دار جو مدت سے خاموش تھے، وہ بھی یاد کرنے لگتے ہیں۔ کبھی خوشی، کبھی مایوسی، کبھی تھکن، کبھی سکون – یہ سب احساسات اس مرحلے کا حصہ ہوتے ہیں۔
نوکری کے پہلے دن سے پہلی تنخواہ تک کا سفر مختصر سا لگتا ہے مگر یہ زندگی کے سب سے قیمتی لمحات میں سے ہوتا ہے۔ یہ وقت انسان کو نہ صرف معاشی طور پر مضبوط کرتا ہے بلکہ ذہنی اور جذباتی طور پر بھی نکھارتا ہے۔ جو کچھ کتابوں سے نہیں سیکھا جا سکتا، وہ سب کچھ یہ دور سکھا دیتا ہے۔ اس میں ناکامیاں بھی ہوتی ہیں اور کامیابیاں بھی، مگر سب سے بڑی جیت یہ ہوتی ہے کہ انسان ہار نہ مانے، اپنے خوابوں پر یقین رکھے، اور محنت جاری رکھے۔
یہ سفر ہر کسی کے لیے مختلف ہوتا ہے۔ کسی کو فوراً نوکری مل جاتی ہے، کسی کو مہینوں لگ جاتے ہیں۔ کسی کو پسند کی جاب ملتی ہے، کسی کو محض گزر بسر کے لیے نوکری کرنا پڑتی ہے۔ لیکن ہر ایک کی کہانی میں ایک بات مشترک ہوتی ہے، اور وہ ہے "کوشش"۔ وہ کوشش جو کبھی ضائع نہیں جاتی، وہ جذبہ جو انسان کو آگے بڑھنے پر مجبور کرتا ہے، اور وہ یقین جو ہر اندھیرے میں امید کا چراغ جلائے رکھتا ہے۔
آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ نوکری لگنے سے پہلی تنخواہ تک کا سفر صرف مالی حصول کا نہیں بلکہ خود کو دریافت کرنے، خود کو سنوارنے اور دنیا کے سامنے خود کو ثابت کرنے کا سفر ہوتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب خواب حقیقت سے ٹکراتے ہیں اور انسان جانتا ہے کہ حقیقت کتنی کٹھن ہے، لیکن ساتھ ہی یہ بھی جانتا ہے کہ وہ اس حقیقت کو جیت سکتا ہے۔ یہ سفر ہمیشہ کے لیے یادگار بن جاتا ہے، کیونکہ یہ پہلا قدم ہوتا ہے اُس راہ پر جو کامیابیوں، ترقیوں اور ایک بھرپور زندگی کی طرف لے جاتا ہے۔
Comments
Post a Comment